Gernail Beeti

1,200.00

جرنیل بیتی

پاکستان کی متنازعہ ترین شخصیت جنرل (ر) پرویز مشرف کی منفرد سوانح عمری
پرویز مشرف کی فوجی پیشہ ورانہ زندگی کے نشیب و فراز ، موت سے ہونے والی آنکھ مچولیاں اور کامیابیوں اور ناکامیوں کی حیران کن داستان، جی ایچ کیو کی غلام گردشوں میں طے پانے والے فیصلے اور اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سازشیں ، بحرانوں اور چیلنجوں سے نمٹنے والے ایک ریٹائرڈ جرنیل کی زندگی اور کردار کے ایسے پہلو جو اب تک پوشیدہ رہے ہیں ۔ایک ایسی کتاب جسے لکھنے کے بعد مصنف کو طویل آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔

مصنف: مقبول ارشد
یہ کتاب سامنے آنے کے بعد جنرل مشرف نے مصنف کو فکس اپ کرنے کا حکم دیا۔ اس کےبعد کیا ہوا؟ یہ کتاب میں پڑھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کتاب سے اقتباس
پیش لفظ

میں راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کے ایک انتہائی شاندار کمرے میں بیٹھا تھا۔ میرے سامنے فوج کے ایک میجر جنرل اور دو بریگیڈیر بیٹھے تھے۔ موضوع گفتگو میری کتاب ’’جرنیل بیتی‘‘ تھی۔ یہ کوئی پہلی ملاقات نہیں تھی بلکہ ان اعلیٰ ترین فوجی افسروں سے میری پہلے بھی کئی ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ یہ تمام ملاقاتیں جی ایچ کیو میں ہوئی تھیں ۔ فوج کے وہ میجر جنرل جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے تھے ،ایک ماہ قبل لاہور کے گریثرن کلب میں بھی مجھ سے ملاقات کر چکے تھے۔ اس سے پہلے ہونے والی تمام ملاقاتیں بہت خوشگوار ماحول میں ہوئی تھیں۔آخر کیوں نہ ہوتیں ……… میں پاکستان کا وہ جرنلسٹ تھا جس نے اس وقت کی طاقتور ترین شخصیت اور بیک وقت فوج کے سربراہ اور صدر پاکستان کے منصب پر فائز پرویز مشرف کی بائیو گرافی لکھی۔ یہ وہ کام تھا جس نے دیگر بہت سے اداروں کی طرح فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر) کے افسران کو بھی پریشان ضرور کیا تھا ۔ یہ افسران حیران و پریشان تھے کہ ان کی مدد و سرپرستی کے بغیر اتنا بڑا کام آخر کیسے ہو گیا؟ آخری ملاقات میں کچھ تلخی اس وقت پیدا ہوئی جب بریگیڈیر رینک کے ایک افسر نے مجھے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی، تاہم صورتحال زیادہ نہ بگڑ ی۔ اس وقت صورتحال ایسی نہ تھی ۔ اس ملاقات میں صورتحال خراب اور کشیدہ ہونے کے تمام پہلو موجود تھے۔ فوج کے میجر جنرل نے لیدر فائل کا کور کھول کر چند پیپر نکالے اور میرے خلاف ’’چارج شیٹ‘‘ پڑھنا شروع کر دی۔ چارج شیٹ کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ میں نے اس کتاب کے ذریعے سنسنی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ میرے لئے یہ بات بڑی حیران کن تھی۔ فوج تو ’’سپہ سالار ‘‘ کی ا س کتاب کو اپنے خرچہ پر انگریزی زبان میں شائع کرنے کا منصوبہ بھی بنا چکی تھی۔ میرے لئے رائلٹی بھی تجویز ہو چکی تھی ۔ کتاب کتنی تعداد میں شائع کی جائے گی ؟ یہ بھی طے کیا جا چکا تھا اور کس پبلشر کا نام استعمال ہو گا ؟ یہ بھی فائنل ہو چکا تھا ۔ پھر یہ سب کیا تھا؟ میرے خلاف چارج شیٹ کیوں پڑھی جا رہی تھی؟ میرے ذہن میں یہ سوال آیا اور پھر فوری طور پر اس کا جواب بھی سمجھ میں آ گیا۔ مجھے اس حوالے سے پچھلی ملاقات میں ہونے والی باتیں یاد آئیں جب فوج کے کچھ افسروں نے مجھے ڈکٹیٹ کرتے ہوئے اس کتاب میں سے وہ مواد نکالنے کو کہا تھا جو پرویز مشرف کے خلاف جاتا تھا اور جس میں ان پر اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی تھی۔ اس ملاقات سے پہلے بھی مجھے اشاروں کنایوں میں یہ بات سمجھائی گئی تھی کہ کتاب میں سے پرویز مشرف کے خلاف تما م مواد حذف کر دیا جائے۔ میرے خیالات کا دھارا اس وقت ٹوٹا جب میجر جنرل شوکت سلطان صاحب دھاڑے۔ میں ان کا منہ دیکھنے لگا۔ دونوں بریگیڈیروں نے سر نیچے کر لئے تھے ۔’’ ہم اس کتاب کو ’’ فورس‘‘ کی مدد سے مارکیٹ سے اٹھوا لیں گے۔‘‘ ’’ہم منسٹری آف انفارمیشن کو کہہ کر اس کتاب پر پابندی لگوا دیں گے۔‘‘ میں حیرت سے جنرل صاحب کا چہرہ دیکھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ یہ وہی جنرل صاحب ہیں جو کچھ عرصہ قبل میری کتاب کا ا نگریزی ترجمہ چھاپنے کی بات کر رہے تھے اور اپنے ایک ماتحت بر یگیڈیر کے ذریعے معاملات بھی فائنل کرنے کی کوشش بھی کر چکے تھے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میر انکار انہیں اتنا گراں گزرے گا۔ میں نے صرف اس بات سے انکار کیا تھا کہ میں ’’ جرنیل بیتی ‘‘ سے وہ مواد حذف نہیں کروں گا جو پرویز مشرف کے خلاف جاتا ہے۔ میرے انکار کی صورت میں مجھے اس طرح دھمکیاں دی جائیں گی، میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اگر میں ان فوجی افسروں کی یہ بات مان لیتا کہ کتاب میں سے وہ مواد نکال دیا جائے جو پرویز مشرف کے خلاف جاتا ہے تو ان کے نزدیک یہ کتاب معلومات کا خزانہ تھی ۔ آخری وقت میں بات اس وقت بگڑ گئی جب انہوںنے مجھے ڈکٹیٹ کرنے کی کوشش کی۔ جب میں نے ڈکٹیشن لینے سے انکار کیا تو انہوں نے کتاب میں خامیاں نکالنی شروع کر دیں ۔ یہ سارا واقعہ دسمبر2005ء کے اواخر کا ہے۔ یہاں میں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے جب اس کتاب کو انگریزی زبان میں چھاپنے کا منصوبہ بنایا تھا تو اس سے پہلے اس کتاب کا اچھی طرح پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔انٹیلی جنس اداروں اور آئی ایس پی آر کے افسران کئی ہفتوں تک اس کتاب میں شامل معلومات کی تصدیق کرتے رہے۔ بہت ساری معلومات تو ایسی تھیں جو ان فوجی افسران کے علم میں بھی پہلی بار آئی تھیں۔بعد ازاں آئی ایس پی آر کے کئی افسران مجھ سے ملاقاتوں میں اس بات کا اعتراف کرتے رہے کہ آپ کی انفارمیشنز بہت کما ل کی ہیں ۔ ہم انہیں کسی بھی طرح غلط ثابت نہیں کر سکے ۔ اسی دوران جنرل صاحب کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے کسی بات کی تردید کی اور Stupidکہہ کر فون آف کر دیا۔وہ پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور مجھ سے پوچھا کہ آپ کارگل کی جنگ کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟ میں نے فوری طور پر کہا کہ جو میں جانتا تھا وہ میں نے کتاب میں لکھ دیا ہے۔ جنرل صاحب نے کہا کہ جو آپ نے لکھا ہے وہ سب غلط ہے۔ یہ ان کا دعویٰ تھا جبکہ میں اپنی اطلاعات پر قائم تھا۔ انہوں نے کا رگل جنگ کا منظر اور پس منظر بتانا شروع کر دیا ۔ دونوں بریگیڈیر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اگر میں تھوڑی دیر اور اس کمرے میں رہا تو صورتحال اور خراب ہو جائے گی ۔ یہ سوچ کر میں نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ جب جنرل صاحب کتاب میں صدر پرویز مشرف کی ناکامیوں والے باب پر پہنچے تو انہوں نے کچھ سوچ کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا : ’’ کتاب میں مزید کیاErorrہیں ؟ یہ آپ کو بریگیڈیر شاہد بتائیں گے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کھڑے ہو گئے ۔ ان کے ساتھ ہی دونوں بریگیڈیر بھی کھڑے ہو گئے ۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ آدھے گھنٹے پر مبنی یہ ملاقات ختم ہو گئی ہے ۔ جنرل صاحب نے ہاتھ ملایا اور مجھے بریگیڈیر شاہد کے حوالے کر دیا جو مجھے لے کر اپنے کمرے میں آگئے۔ اب باقی کا کام بریگیڈیر شاہد نے سنبھال لیا۔ تاہم ان کا سٹائل جنرل صاحب سے ذرا مختلف تھا ۔ انہوں نے بھی واضح طور پر کہا کہ کتاب میں سے سو کے قریب صفحات نکال دیئے جائیں ۔ خاص طور پر کارگل اور پرویز مشرف کی ناکامیوں والا باب تو بالکل ہی نکال دیا جائے۔ میں نے انکار کر دیا۔ میرا استدلال یہی تھا کہ پرویز مشرف کی جہاں بہت سی پالیسیاں ملک و قوم کے مفاد میں ہیں ، وہاں بہت سی غلط بھی ہیں اور وہ ملک و عوام کے مفاد میں نہیں ہیں اور میں نے انہی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ان کا نقصان اس ملک کے عوام کو ہو رہا ہے۔ پرویز مشرف کی مقبولیت میں کمی کی وجہ بھی یہی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بات کو خود پرویز مشرف تو تسلیم کر رہے تھے لیکن ان کے ’’ وفا دار ‘‘ تسلیم کرنے سے انکاری تھے ۔ میری طرف سے انکار کے بعد میں جانتا تھا کہ اب مشکل وقت شروع ہو سکتا ہے۔ راولپنڈی سے واپسی کے چند ہی دنوں بعد مجھے ایک انگریزی اخبار کے دوست نے بتایا کہ آئی ایس آئی کے کچھ لوگ آپ کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے پھر رہے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے صحافیوں سے بھی رابطے کئے ہیں۔ میرے لئے یہ حیرانی کی بات نہیں تھی۔ چند دن بعد ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل خالد کا فون بھی آ گیا اور انہوں نے بھی ملاقات کی خواہش ظاہر کر دی۔ ان سے ملاقات ہو ئی اور انہوں نے بتایا کہ کمانڈر صاحب( بریگیڈیر ظہیر) آپ سے ملنے کے خواہشمند ہیں۔ انٹیلی جنس کی اصطلاح میں کمانڈر بر یگیڈیر رینک کا ایک افسر ہوتا ہے اور جو انٹیلی جنس ادارے کا صوبائی سربراہ ہوتا ہے۔ کمانڈر صاحب سے ملاقات ہوئی جو مجھے ایک پڑھے لکھے اور نفیس آدمی لگے۔ انہوں نے مجھے کہیں بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ وہ مجھ سے سوال کر رہے ہیں اور میں جواب دے رہا ہوں۔ بریگیڈیر ظہیر کو پیپلز پارٹی کی حکومت نے 26اپریل 2008ء کو اس وقت اس عہدے سے ہٹا دیا جب ان کی ریٹائرمنٹ میں دو ماہ باقی تھے لیکن بعد ازاں ان کی خدمات آئی ایس آئی نے لے لیں اور انہیں اسلام آ باد میں تعینات کر دیا گیا ۔ اس وقت تک مختلف ذرائع سے یہ بات میرے علم میں آ چکی تھی کہ نہ صرف میرے ٹیلی فون ٹیپ کئے جا رہے ہیں بلکہ مجھے ’’واچ ‘‘بھی کیا جا رہا ہے۔ ملٹری انٹیلی جنس سے فارغ ہوا تو آئی ایس آئی کے کے ایک ڈائریکٹر نے اپروچ کیا اور مجھ سے سوال و جواب شروع کر دیئے۔ میرے اور میری فیملی کے بارے میں تحقیقات کا آغاز ہو گیا اور مختلف طریقوں سے مجھے پریشان کیا جانے لگا۔
مقبول ارشد
تحقیقی صحافی مقبول ارشد کی تہلکہ خیز کتاب کی مزید تفصیلات اس کتاب میں پڑھیں جسے کے مندرجات آپ کو حیران کر دیں گے۔

* Rs.150 Flat Delivery Charges of Orders Below Rs.1500
* Free Delivery on Sale/Bundle Offers, Select Free Delivery upon order

Quick Order Form