Lal Haveli Se Aqwam-e-Muttahida Tak

1,500.00

لال حویلی سے اقوام متحدہ تک
مصنف: شیخ رشید احمد

امریکہ کے یوم آزادی پر تقریب شروع ہو چکی تھی، ایک نوجوان سائیکل پر پیڈل مارتا ہوا بالآخر سفارتخانے پہنچ گیا۔ سائیکل پر آنے ولا شاید یہ واحد مہمان تھا جس پر انٹیلیجنس بیورو والے بھی حیران تھے لیکن اس کا نام مہمانوں کی فہرست میں شامل تھا۔ سائیکل سٹینڈ نہ ہونے کی وجہ سے سادہ لباس میں اہلکار نے نوجوان سے سائیکل لی اور پارکنگ کے لیے لے گیا۔

یہ نوجوان جب سفارتخانے میں داخل ہوا تو ایک جانب ولی خان اور مولانا شاہ احمد نورانی اپوزیشن کے لیڈروں کے ساتھ موجود تھے ایسے میں سامنے سے ایک شخص اس کی جانب بڑھا اور اسے ’قومی بدمعاش‘ کہہ کر پکارا۔ یہ نوجوان پاکستان کا سینیئر سیاست دان شیخ رشید تھا جبکہ اس کو ’بدمعاش‘ پکارنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

شیخ رشید احمد نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’لال حویلی سے اقوام متحدہ تک میں تفصیل سے لکھا ہے۔

شیخ رشید امریکی سفارتخانے میں ذوالفقار علی بھٹو سے ٹکراؤ کے واقعے کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ ’بھٹو میرے قریب آ کر کہنے لگے کہ اس دن لیاقت باغ میں میں تمھیں بچا لیا ورنہ لوگ تمہارا قیمہ بنا دیتے پھر ایک دم بولے تم کیا سمجھتے ہو کہ ایوب خان کو تم نے اتارا ہے یا بھٹو نے اتارا ہے؟

’کان کھول کر سن لو ایوب خان کو گوہر ایوب اور اختر ایوب (صدر ایوب خان کے فرزند) نے اتارا ہے، ساتھ ہی مجھ سے پوچھا کہ تم نے بی اے کر لیا میں نے کہا کہ ابھی نہیں انھوں نے اپنے ملٹری سیکٹری کو کہا کہ ’قومی بدمعاش‘ کو گورڈن کالج سے نکالنا مشکل ہو جائے گا۔

شیخ رشید احمد لکھتے ہیں کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے بطور چیف مارش لا ایڈمنسٹریٹر چارج سنبھال لیا تھا۔ انھوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس میں بنگلادیش کو منظور کروانے کے لیے اپنی پارٹی کا کنوینشن لیاقت باغ میں منعقد کرنے کا اعلان کیا اور کانفرنس سے دو روز قبل شہید چوک میں جلسے کے دوران بھٹو کو چیلنج کیا کہ اس میں ہمت ہے تو لیاقت باغ میں جلسہ کرکے دکھائے۔

انھوں نے اخبارات میں بھی بیانات دیے کہ بھٹو ان کی لاش پر سے گزر کر ہی لیاقت باغ میں جلسہ کرے گا۔

بقول شیخ رشید اس اعلان کے بعد پورے شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا پولیس نے والد اور بھائیوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا لیکن انھوں نے حوصلہ نہیں ہارا آخری رات، جس کے بع صبح جلسہ ہونا تھا تو انھوں نے لیاقت باغ کے سامنے واقع دوگیز کیفے کے سامنے اپنے دوست بٹ کے گھر گزاری۔

’ساری رات ایک بٹن والا چاقو لے کر چھت پر سویا رہا اگر کوئی بلی بھی پاس سے گزرتی تو میں گھبرا جاتا تھا۔‘

شیخ رشید بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے چند جانثاروں کی ایک ٹولی کو اسلامیہ سکول کے سامنے اکٹھا ہونے کا وقت دے چکے تھے، صبح ہی سے کنوینشن میں جوق در جوق بسیں آ رہی تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں پیپلز پارٹی کے جیالے داخل ہو رہے تھے تھوڑی دیر میں پولیس کی ایک پلاٹون دوگیز کیفے کی طرف بڑھی تو وہ گھبرا گئے لیکن پتا چلا کہ اس نے صرف اپنی حفاظتی پوزیشن سنبھالی ہے۔

شیخ رشید مزید لکھتے ہیں کہ جب بھٹو تقریر شروع کر چکے تو وہ پولیس سے بچ کر اپنے دوستوں میں پہنچ گئے اور نعرے لگاتے ہوئے مین گیٹ سے اندر داخل ہو گئے۔ جلسہ گاہ میں کھلبلی مچ گئی اور لوگوں نے بھاگنا شروع کر دیا جس کا انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا اور جب وہ سٹیج کے قریب پہنچے تو اسیٹج سے کسی بے وقوف نے گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردی اور جلسہ درہم برہم ہو گیا۔

’منصوبے کے عین مطابق لیاقت باغ کے باہر کھڑی گاڑیوں کو میرے دوستوں نے دو تین جگہوں پر آگ لگا دی۔ نوجوانوں نے مجھے کندھوں پر اٹھا لیا اور میں بھٹو کے سامنے بنگلادیش نامنظور، نامنظور کے نعرے لگا رہا تھا جبکہ میرے اردگرد 20، 25 نوجوانوں کا حصار تھا جب زیادہ گولیاں چلیں تو میں نے کوٹ، قمیض اور بنیان سب اتار دیے اور ننگی چھاتی دکھاتے ہوئے بھٹو کو للکارا کہ ’یہاں گولی مار‘، جلسہ درہم برہم ہو گیا۔

’لوگوں نے باہر نکل کر تین چار گاڑیوں کو مزید آگ لگا دی بھٹو پر اتنا خوف طاری ہوا کہ سکیورٹی نے گھیرے میں لے لیا اور وہ ایک گھنٹے میں گوالمنڈی سے نکل گئے۔

میڈیا ہاؤسز سے قربت

شیخ رشید احمد اپنے سیاسی سفر میں وزرات اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزیر بھی رہے چکے ہیں انھوں نے زمانہ طالب علمی سے بڑے میڈیا ہاؤسز اور نامور صحافیوں سے تعلقات استوار رکھے ہیں۔

اپنی یادداشتوں میں وہ لکھتے ہیں کہ بھٹو کا جلسہ پلٹنے کے بعد سارے پاکستان میں سیاسی شخصیات سے ان کا تعارف ہو چکا تھا انھوں نے اخراجات پورے کرنے کے لیے شہر کے مل مالکان سے چندہ لینا بھی شروع کردیا اکثر مالکان کے بیٹے گورڈن کالج میں پڑھتے تھے۔ یوں پہلی تبدیلی یہ آئی کہ وہ سائیکل سے 93 ویسپا سکوٹر پر شفٹ ہو گئے۔

’شاید ہی کوئی رات ایسی گزرتی ہو جب میں جنگ کے گوالمنڈی کے دفتر میں شورش ملک سے ملنے نہ جاتا۔ جب اخبار کی کاپی جاتی تو رات ڈیڑھ بجے ان کے ساتھ واپس آ جاتا اس طرح ایک دو دن چھوڑ کر نوائے وقت میں بھی شیخ اکرام کے پاس گپ شپ لگانے جاتا۔‘

’اس سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اخبار میں خبر لگ جاتی تھی اور دوسرا خبروں کا سب سے پہلے پتا چل جاتا تھا۔ شورش کشمیری مرحوم نے مجھے مجید نظامی، زیڈ اے سلہری اور عبداللہ ملک سے متعارف کروایا۔ اس طرح میں مجیب الرحمان، الطاف قریشی اور صلاح الدین تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔‘

شیخ رشید کے سیاسی فیصلوں میں صحافی اثر رسوخ بھی نظر آتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ کالج کے دوران مجیب الرحمان شامی کے توسط سے وہ جاوید ہاشمی اور حفیظ خان کے ساتھ ایک ہی دن تحریک استقلال میں شامل ہوئے اور طے یہ پایا کہ تینوں اشخاص کو تحریک استقلال کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔ تاہم جب خاکسار تحریک قومی اتحاد میں شامل ہوئی اور ٹکٹ تقسیم ہوئے تو انھیں پنڈی سے ٹکٹ نہیں مل سکا۔

گجرات کے چوہدری خاندان سے تعلق

شیخ رشید اپنے سیاسی سفر میں چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی کے قریب رہے ہیں اور جس حکومت میں یہ دونوں شامل رہے شیخ رشید بھی اس کا حصہ بنے۔

اپنی یادداشتوں میں اس تعلق کی بنیاد بتاتے ہوئے شیخ رشید لکھتے ہیں کہ جب انھوں نے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کو منظم کیا تو گجرات میں ان کی چوہدری ظہور الٰہی سے شناسائی ہوئی اور وہ ان کے سیاسی مددگار ثابت ہوئے۔

’چوہدری ظہور نے 32 بور کا پستول کا لائسنس بنوا دیا اور گھر فون لگوایا جس کے اخراجات وہ برداشت کرتے تھے، یوں ساری سیاست ان سے وابستہ کرلی۔‘

شیخ رشید لکھتے ہیں کہ سنہ 1977 کے انتخابات میں ظہور الٰہی کے کڑیاں والا جلسے میں تصادم ہو گیا اور انھوں نے اسی پستول سے مقابلہ کیا اور اسی دوران ایک شخص ہلاک ہو گیا جس کے بعد انھیں اس کیس میں گرفتار بھی کر لیا گیا اور پھر ان کی رہائی اس وقت عمل میں آئی جب مارشل لا لاگو ہوا اور انھیں ضمات پر رہائی ملی۔

شیخ رشید اسمبلی میں پہنچنے کے لیے کئی سال تگ و دو میں رہے لیکن انھیں ایوان میں داخل ہونے کا موقع مارشل لا میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ملا۔

وہ لکھتے ہیں کہ وہ کسی جماعت کے عہدیدار نہ تھے لیکن ان کے کاغذات مسترد کر دیے گئے اور جب انھوں نے پریزائیڈنگ افسر سے شکوہ کیا تو انھوں نے صاف کہہ دیا کہ آپ سمجھدار ہیں اوپر رابطہ کریں۔

’پروفیسر واثق سے کہا کہ کسی ذمہ دار آدمی سے رابطہ کرائیں تو انھوں نے اپنے شاگرد کرنل ترمذی سے رابطہ کیا۔ کرنل ترمذی نے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمان سے ملاقات کا بندوبست کر دیا۔

’پہلی ہی ملاقات میں ایسا لگا کہ میری گفتگو عبدالرحمان کو متاثر کر گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ جنرل ضیاالحق سے بات کریں گے، جنرل اختر عبدالرحمان نے ضیاالحق سے میرے کونسلر کا انتخاب لڑنے کی اجازت لی۔‘

شیخ رشید اپنے تعلقات کے بارے میں مزید لکھتے ہیں کہ الیکشن میں شرکت دلانے کی وجہ سے اب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمان سے ان کا رابطہ ہو گیا تھا وہ ان کی رائے کو اہمیت دیتے اور اکثر انھیں ’رومیل آف پالیٹکس‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔

’جنرل عبدالرحمان کی کوشش تھی کہ میں جنرل ضیاالحق سے ملاقات کروں ایک بار ملاقات طے ہو گئی ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تو انھوں نے ایک ہی جملہ کہا کہ تعارف کی ضرورت نہیں۔‘

’دوسری بار ملاقات ان کی وفات سے تین روز قبل ہوئی جس سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ انتخابات نہیں کرائیں گے۔

شیخ رشید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو کے بھی مخالف رہے اس مخالفت میں وہ ان پر سیاسی تنقید کے ساتھ ذاتی تنقید بھی کرتے رہے جس کا ذکر خود ان کی یادداشتوں کی کتاب میں سے ملتا ہے۔ پرویز مشرف حکومت میں وہ وفاقی وزیر تھے جب بینظیر بھٹو کی وطن واپسی پر مذاکرات جاری تھے۔

شیخ رشید لکھتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کے محل میں بینظیر بھٹو کے ساتھ مذاکرات میں طارق عزیز اور لیفٹیننٹ جنرل حامد شریک تھے جنرل کیانی کی تصدیق نہیں ہوئی لیکن بینظیر بھٹو کی خواہش تھی کہ وہ شامل ہوں۔

’طارق عزیز ایک ایسی حکومت بنانا چاہتے تھے جس کا صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم بینظیر بھٹو ہوں اس اثنا میں طارق عزیز نے ایم کیو ایم کے الطاف حسین سے بھی ملاقات کی تھی۔ ساری صدارت طارق عزیز چلا رہے تھے اور انھیں جنرل پرویز مشرف کا اعتماد حاصل تھا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’بینظیر بھٹو کی واپسی میں طارق عزیز نے کلیدی کردار ادا کیا این آر او طے ہو چکا تھا بینظیر بھٹو سے تمام مقدمات واپس لے لیے گئے۔

شیخ رشید کے مطابق چوہدری (شجاعت اور پرویز الٰہی) این آر او کے حامی نہیں تھے لیکن وہ صدر مشرف اور طارق عزیز کے سامنے بول نہیں سکتے تھے۔ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ چوہدری شجاعت درست کہتے تھے طارق عزیز کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ اسی دوران نواز شریف نے پاکستان آنے کی کوشش کی لیکن ان کو واپس بھیج دیا گیا۔

’سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ کے ساتھ ملاقاتوں میں، میں صدر مشرف کے ساتھ ہوتا تھا بادشاہ عبداللہ نے ایک بات بڑی واضح کی تھی کہ اگر بینظیر بھٹو آئیں تو پھر میں نواز شریف کو یہاں روک نہیں سکوں گا۔ جنرل مشرف نے پوری کوشش کی کہ بینظیر کے ملک میں آ جانے کے بعد ایسے حالات پیدا ہوں کہ نواز شریف کو نہ آنے دیا جائے۔

مشرف کی وردی اور بینظیر بھٹو کی ضد

شیخ رشید احمد لکھتے ہیں کہ صدر مشرف کا خیال تھا کہ اگلی حکومت وہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کر سکتے ہیں یہی غلط فہمی ان کے زوال کا باعث بنی۔

’جب مشرف نے الیکشن کی بات کی تو وجیہ الدین اور امین فہیم ان کے مقابل آ گئے۔ مشرف نے کہا کہ جس دن وہ حلف اٹھائیں گے وہ وردی اتار دیں گے لیکن بینظیر بھٹو ضد پر اڑی رہیں۔‘

یاد رہے کہ پرویز مشرف نے 27 نومبر 2007 کو فوجی منصب چھوڑ دیا تھا اور اگلے ہی مہینے بینظیر بھٹو ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

بینظیر بھٹو کی ہلاکت کا واقعہ شیخ رشید کے شہر راولپنڈی میں پیش آیا، وہ لکھتے ہیں کہ بینظیر کا خیال تھا کہ وہ 27 دسمبر کا جلسہ ہر صورت میں کریں گی چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بینظیر بھٹو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آصف زرداری کے کہنے کی وجہ سے ملتوی کی گئی اور یہ بات ان کی موجودگی میں ہوئی۔

یہ کتاب تفصیل سے پڑھنے والی ہے اور بے حد دلچسپ ہے۔

* Rs.150 Flat Delivery Charges of Orders Below Rs.1500
* Free Delivery on Sale/Bundle Offers, Select Free Delivery upon order

Quick Order Form