Reviews
There are no reviews yet.
₨630.00
میکاولی کی شہرہ آفاق کا اردو ترجمہ
دی پرنس
مصنف:نکولو میکاولی
ترجمہ: ڈاکٹر محمود حسین خان
دانا کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ۔آخر ایسا کیوں ہے ؟اس موضوع پر نکولو میکادلی کی کتاب’’دی پرنس ‘‘ بلاشبہ دنیا کی سب سے زیادہ مشہور اور اہم کتاب ہے۔
میکاولی نے طاقت کو ویسے سمجھا جیسے شاید ہی کسی نے سمجھا ہو۔
اُس کی کتاب دی پرنس پر پابندی لگی، بہت سے لوگوں نے اُس سے نفرت کی، لیکن بادشاہوں، آمروں اور بڑی کمپنیوں کے سربراہوں نے اسے گہرائی سے پڑھا۔
یہ ہے اُس کی کتاب دی پرنس کا خلاصہ جو آپ کو سکھائے گا کہ دوسروں پر کیسے غلبہ پایا جائے یا خود کو اُن سے کیسے بچایا جائے جو ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کمزور دل والوں کے لیے نہیں۔
٭ طاقت خوشامد کی منتظر نہیں رہتی۔
جو چاہتا ہے کہ اُس کی اطاعت کی جائے، اُسے حکم دینا آنا چاہیے۔
اگر تم ہچکچاؤ گے، تو کھا لیے جاؤ گے۔ رعب مانگا نہیں جاتا، نافذ کیا جاتا ہے۔
٭ اچھائی ہمیشہ فائدہ نہیں دیتی۔
اچھے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ تم ایک بے رحم دنیا میں بچ جاؤ گے۔
٭ ہمیشہ کے احسان پر بھروسہ نہ کرو۔
لوگ اپنے باپ کی موت کو اپنی دولت کے نقصان سے جلد بھول جاتے ہیں۔یاد رکھیںکہ دولت لوگوں کو خون سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔
خوف مؤثر ہوتا ہے۔
٭ خوف مؤثر ہوتا ہے۔
اگر محبت اور خوف میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو خوف بہتر ہے۔ایسا احترام جو خوف کے ساتھ ہو، وہ زیادہ دیرپا ہوتا ہے۔
٭ اعتماد کرو مگر آنکھ کھلی رکھو۔
ہر کسی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو کبھی نہ بھولو۔
٭ عوام کو اخلاقیات نہیں، تماشا چاہیے۔
سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔جیتنے والے وہ ہوتے ہیں جو چالاک ہوں، نہ کہ وہ جو نیک ہوں۔
٭ خالص نیکی بے وقعت ہوتی ہے۔
بادشاہ کو نیکی سے دُور نہیں رہنا چاہیے، لیکن اُسے بوقتِ ضرورت برائی میں داخل ہونا آنا چاہیے۔
اخلاقیات ایک آسائش ہے جو ہر طاقتور کے پاس نہیں ہوتی۔
٭ جب مارو، تو کاری ضرب لگاؤ۔
ذلت ایک ہی بار دی جانی چاہیے۔جلد دیا گیا درد رعب پیدا کرتا ہے، مسلسل درد انتقام کو جنم دیتا ہے۔
٭ دوسروں کو اپنے کا محتاج بناؤ۔
جو کسی اور کو طاقتور بناتا ہے، وہ خود کو تباہ کرتا ہے۔طاقت کسی کو دینا گویا اپنے ہاتھوں سے اپنی قبر کھودنا ہے۔
٭ ہر کوئی تمہارا خیرخواہ نہیں ہوتا۔
لوگ احسان فراموش، دو رُخے، دھوکہ باز اور اداکار ہوتے ہیں۔لوگوں کو اچھا سمجھنے سے تم آسان شکار بن جاتے ہو۔
٭ دوست بھی دشمن بن سکتے ہیں۔
جو شخص غداری سے نہیں ڈرتا، اُسے دوست سے ڈرنا چاہیے جس پر وہ بھروسا کرتا ہے۔
یاد رکھیں ،وفاداری ہمیشہ قائم نہیں رہتی، اور دوست بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔
٭ سیاست توازن کا کھیل ہے۔
اگر تم بہت طاقتور ہو جاؤ، تو سب کی نظروں میں آ جاؤ گے اور نشانہ بنو گے؛ اگر بہت کمزور ہو، تو کچلے جاؤ گے۔یہ بات ذہن میں رکھیں کہ درمیانی طاقت تمہاری جگہ محفوظ رکھتی ہے اور دیرپا بناتی ہے۔
٭ لوگوں کو اُن کے عمل سے پہچانو، باتوں سے نہیں۔
آدمی کا اندازہ اُس کے کاموں سے لگایا جانا چاہیے، نہ کہ اُس کی باتوں سے۔الفاظ صرف نقاب ہوتے ہیں، عمل اصل نیتیں ظاہر کرتے ہیں۔
٭ شکست کو آخری حل سمجھو، اعتراف نہیں۔
چاہے تم بدترین حالات میں ہو، طاقتور نظر آنا چاہیے۔
طاقت اور اعتماد کا تاثر تمہیں اہم وقت دے سکتا ہے منصوبہ بندی اور انتقام کے لیے۔
٭ بہادری کا مطلب بے وقوفی نہیں ہوتا۔
اصل طاقت یہ جاننے میں ہے کہ کب اور کہاں حملہ کرنا ہے، نہ کہ ہر کسی پر حملہ کر دینا۔
عقلمند بلاوجہ حملہ نہیں کرتا، وہ جانتا ہے کب پیچھے ہٹنا ہے اور کب زور سے وار کرنا ہے۔
یہ ہیں وہ اصول جو مکیاویلی کے مطابق طاقت اور غلبے کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔ہمارے حکمران اور ایلیٹ کلاس انہی اصولوں پر عمل لررہی ہے۔
اگر اس بارے میں مزید حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
* Rs.200 Flat Delivery Charges of Orders Below Rs.2000
Be the first to review “The Prince | دی پرنس”