آپ کے دماغ کو روشن کرنے والی دو بہترین کتابیں

1,440.00

اِن کتابوں کو ضرور پڑھیں ۔ یہ کتابیں آپ کو دماغ کو روشن کر دیں گی۔
وحی، علم اور سائنس «
الہام، ادراک اور حقیقت کا سفر
انسانی علوم کی تاریخ بھی اس قدر پرانی ہے جس قدر پرانی خود انسان کی تاریخ ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو زمین پر خلیفہ بنایا تو اس کو اسماء کا علم عطا کیا۔ بیشتر مفسرین کرام اسماء کے علم کو اشیاء کے علم سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ معلوم کرنا تو بہت مشکل ہے کہ حضرت آدم کو اشیاء کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا گیا یا جنت میں رہتے ہوئے وہاں کی چیزوں کا مشاہدہ کرتے کرتے انہیں اشیاء کی پہچان ہو گئی۔ بہرحال ان کو اشیاء کا علم عطا کیا گیا خواہ اس کا ذریعہ وحی رہا ہوں یا مشاہدہ اور تجربہ۔ حضرت آدم کو اپنی غلطی کی معافی طلب کرنے کے لئے جو کلمات سکھائے گئے تھے، وہ جامع علم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں مختلف اقوام کی تاریخ کے بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے بعض اقوام کو ایسے علوم و فنون سے نوازا تھا جس کے نتیجے میں ان قوموں نے زبردست ترقی کی اور عظیم تمدن برپاکیا۔ مگر جب ان پر اللہ تعالی کی نوازشوں کی بارش ہوئی تو وہ عیش پسند ہو گئے اور اپنے تجرباتی علوم کا بھرپور فائدہ اٹھایا مگر پیغمبروں پر وحی کے ذریعے نازل ہونے والے علم کو نہ مانا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قومیں اپنے علوم و فنون اور شاندار تہذیب و تمدن کے ساتھ ہی تباہ و برباد ہوگئیں۔ پیغمبر ، انسانیت کو بچانے کی آخر دم تک کوشش کرتے رہے، سرکش انسان اپنے علم کے زعم میں انسانیت کو تباہی سے دوچار کرتے رہے ،اس کے باوجود تہذیب و تمدن کا کارواں آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ نبی آخر زمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اسلام کو مکمل کر دیا۔ مسلمانوں کے دور میں وحی اور تجربہ شیر و شکر ہے اور دونوں کو ذریعہ علم کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔ جب مسلمان روبہ زوال ہوئے اور علم کی شمع یورپی اقوام کے ہاتھوں میں گی تو علم کا جامع تصور ختم کر دیا گیا۔ عیسائیت کی ظالمانہ روش اور اسلام کے خلاف تعصب نے یورپی دانشوروں کو مذہب اور اس سے متعلق ہر چیز سے بیگانہ کر دیا۔ یورپی سائنسدان فلسفہ اور مذہب کو انسانی خیالات کا مجموعہ سمجھتے تھے اور صرف تجرباتی علوم کو علم کا درجہ دیتے تھے تھے۔ ان کے نزدیک نہ تو فلسفہ، علم کہلانے کا مستحق تھا اور نہ ہی مذہب کو یہ مقام دیا جا سکتا تھا۔ لفظ سائنس دراصل اسی محدود تصور علم کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا جس میں فلسفیانہ توجیہات اور مذہبی بنیاد مردود قرار پائیں۔ علم و حکمت کے حصول کے لیے مسلمانوں نے جس تجرباتی منہاج کو ترقی دی اس کی بنیادیں خود قرآن کریم میں موجود ہیں۔ چنانچہ ان کے لئے تجربہ اور وحی دونوں ہی اساسی ذرائع علم تھے۔ یوپی اقوام نے مسلمانوں سے تجرباتی منہاجیات کو نہ صرف حاصل کیا بلکہ اس کو ترقی بھی دی جس کے نتیجے میں وہ زبردست مادی ترقی سے ہمکناہوئے۔ مگر علم کو عقل میں اور عقل کو محسوسات میں محدود کرتے ہوئے انہوں نے ذریعہ علم کی حیثیت سے وحی کا انکار کر دیا۔
یہ کتاب اسی موضوع پر سمندر کو کوزے میں سموئے ہوئے ہے۔پڑھیں اور مصنف کو داد دیں ۔
مصنف۔ ڈاکٹر محمد ریاض کرمانی
بحر روم «
رُومی زمان و مکاں سے آزاد ایک ایسی روحانی شخصیت ہیں جو آٹھ سو سے زائد برس گزر جانے کے باوجود دنیا بھر میں پڑھے جاتے ہیں۔ اُن کی فارسی نظم ــ’’ مثنوی روم‘‘ دنیا کی طویل ترین نظموں میں سے ایک ہے جس میں 25 ہزار اشعار ہیں اور چھ جلدوں میں موجود ہے۔ مثنوی کی شہرت کا اندازہ اِس امر سے لگائیے کہ مثنوی کے تراجم آج بھی مغربی ممالک میں بیسٹ سیلر ہوتے ہیں۔ ــ’’ بحرِ روم ‘‘اسی مشہورِ زمانہ نظم میں موجود بیسیوں کہانیوں میں سے 30 کہانیوں کے اُردو میں آزاد ترجمہ پر مشتمل ہے جس میں مصنفِ نے پس منظری ماحول خود تخلیق کر کے جدید زمان و مکاں سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔ یہ کہانیاں براہِ راست فارسی سے نہیں لی گئیں بلکہ ایک مغربی مترجم پروفیسر آر اے نکولسن کے انگریزی ترجمہ سے لی گئی ہیں۔ انگریز پروفیسر نکولسن نے 1926ء سے 1940ء کے دوران مولانا جلال الدین رومی کی مشہور مثنوی کا آٹھ جلدوں میں ترجمہ کیا۔ تب سے آج تک پوری دنیا رومی کی گرویدہ ہے۔ حیرت ہے کہ خدا نے ایسی خدمت کسی مسلم ملک کے سکالر کی بجائے ایک انگریز سکالر سے لے لی۔ پروفیسر نکولسن نے رومی اور شمس تبریز (دیوانِ شمس) کے علاوہ حضرت داتا گنج بخش کی کتابــ’’کشف المحجُوب ‘‘کو بھی ترجمہ کر کے مغربی دنیا سے متعارف کروایا۔ اس کے علاوہ سندھ کے صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی اور پنجاب کے بابا بلھے شاہ کی شاعری بھی ترجمہ کی۔ اہم بات یہ ہے کہ پروفیسر نکولسن شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے معلم تھے۔ اقبال کی شاعری اور شخصیت میں پروفیسر نکولسن کی بھی گہری چھاپ ہے۔ حیرت تب ہوتی ہے جب بعد میں اقبال نے اپنی شاعری ــ’’اسرارِ خودی ‘‘لکھی تو پروفیسر نکولسن نے اِسے بھی ترجمہ کیا، یعنی اپنے ہی طالبِ علم کی تصنیف۔ اُمید ہے قارئین کو بحرِ روم کی گہرائیوں میں سے جاری ہونے والی قدیم کہانیوں میں ماضی، حال اور مستقبل کی جہتیں نظر آئیں گی اور قلب و نظر کو ایسی وسعت نصیب ہو گی جس کے ذریعے کائنات کے بیش بہا گہرے اور پراسرار رموز سے آگاہی نصیب ہو گی۔
مصنف : پروفیسر آر اے نکولسن ، ترجمہ : محمد احسن

* Rs.200 Flat Delivery Charges of Orders Below Rs.2000

Quick Order Form

    Category: