Unkahi Kahani

2,000.00

اَن کہی کہانی
خونی تقسیم ، پاک بھارت جنگ، آپریشن جبرالٹر، چین وار ، اندرونی سیاست اورعسکری مشکلات
لیفٹیننٹ جنرل بی ایم کول (چیف آف جنرل سٹاف انڈین آرمی)
یہ تہلکہ خیز کتاب بہت سے رازوں سے پرہ اٹھاتی ہے۔

ہندوستان آرمی کے ابتدائی دنوں کی روداد، ہندوستانی آرمی کے اندورنی اختلافات و معاملات۔
کشمیر جنگ،آپریشن جبرالٹر،ہندوستان چین جنگ،ہندوستانی کی اندرونی سیاست کی ان کہی کہانیاں۔
ایک اہم کتاب جس کے ذریعے ہندوستانی سیاسی و فوجی معاملات اور اہم واقعات کے پس پردہ حقائق سامنے آتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل بی ایم کول لکھتےہیں:
جالندھر سے میں نے لیفٹیننٹ کرنل موسیٰ کوٹیلی فون کیا وہ ان دنوں لاہور میں پاکستانی فوج کے افسر تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ سے ملنے کے لیے لاہور آنا چاہتا ہوں۔ اس لیے آپ سرحد پر سے میرے گذرے کا انتظام کریں۔ انھوں نے مجھے جواب دیا کہ اب ہم دونوں الگ الگ فوجوں میں ہیں جو ایک دوسرے کے خلاف بزردآزماہیں ۔ اس لیے مجھے سرحد پار کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن میں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور اٹاری کی سرحدی چوکی پر جا پہنچا۔ پاکستانی پہریدار نے مجھ سے پرمٹ مانگاتا کہ مجھے سرحد پار کرنے کی اجازت دی جائے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ میں اسے کیا جواب دوں کہ میرے پاس پرمٹ کیوں نہیں ہے۔ اتنے میں اس چوکی کا انچارج جونیئر کمیشنڈ افسر وہاں پہنچ گیا اور مجھے دیکھتے ہی اس کی باچھیں کھل گئیں۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا کیونکہ کچھ عرصہ پہلے ہم ایک ہی جگہ کام کر چکے تھے۔ ان دنوں سرحد پر اتنی سختی سے جانچ پڑتال نہیں ہوتی تھی۔ چنانچہ اس نے مجھے پرانی دوستی کی خاطر گذرنے کی اجازت دے دی کیونکہ میں نے اسے بتایا تھا کہ میں لیفٹیننٹ کرنل موسیٰ سے ملنے جا رہا ہوں۔ وہ چونکہ جانتا تھا کہ ہم دونوں پرانے دوست ہیں اس لیے اس نے مجھے جانے دیا۔ ان دنوں ہندوستان اور پاکستان کی فوجوں کی وردیاں ایک جیسی ہوتی تھیں۔ چنانچہ سرحد پار کرنے کے ایک گھنٹے بعد میں لاہور ایریا ہیڈکوارٹر میں جا پہنچا۔ سنتری نے مجھے پاکستانی افسر سمجھ کر سیلوٹ کیا اور پیشتر اس کے کہ میں صورت حال پر غور کروں۔ میں موسیٰ کے کمرے میں پہنچ گیا تھا۔ اس علاقے کے کمانڈر میجر جنرل محمد افتخار خاں کا کمرہ ساتھ ہی تھا۔ موسیٰ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ وہ اگرچہ میرے پرانے دوست تھے لیکن اب وہ پاکستانی فوج میں تھے جس کی ہمارے ساتھ جنگ ہو رہی تھی۔ انھوں نے مجھے لاہور آنے سے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اب میں ان کے سامنے بنفس نفیس موجود تھا۔ انھوں نے صاف لفظوں میں کہا کہ مجھے بلا اجازت پاکستان آنے کا کوئی حق نہیں ہے اور مجھے فوراً ہندوستان جانا ہو گا۔ وہ چاہتے تو مجھے گرفتار کر لیتے لیکن گرفتار کرنے کی بجائے انھوں نے مجھے جیپ میں سوار کیا۔ پہریدار ساتھ دئیے اور مجھے اٹاری کی بجائے فیروز پور بھیج دیا حالانکہ فیروز پور اٹاری سے بہت دور تھا۔ موسیٰ سے بحث بے کار تھی۔ اس لیے میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میں بخریت تمام ہندوستان واپس پہنچ گیا۔

مصنف چونکہ بھارتی وزیر اعظم نہرو کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے ۔ اس لئے وہ ایوان اقتدار میں میں ہونے والے تمام واقعات کے عینی شاہد بھی ہیں اور ان واقعات کے ہام کردار بھی ، خاص طور پر جنوبی ایشیا کی سیاست ، پاک بھارت جنگ، چین کے ساتھ جنگ میں شکست اور اندورونی سیاست کے بہت سے حقائق سے پردہ اٹھاتی یہ کتاب آپ کو پسند آئے گی۔

* Rs.150 Flat Delivery Charges of Orders Below Rs.1500
* Free Delivery on Sale/Bundle Offers, Select Free Delivery upon order

Quick Order Form

    Category: